Salman Rashid

Travel writer, Fellow of Royal Geographical Society

گھاس کی شرح نمو

Bookmark and Share

میری یہ بات لوگوں کے لیے بے حد نفرت انگیز ہوتی ہے اس لیے میں دوبارہ کہوں گا کہ مجھے کرکٹ سے نفرت ہے۔ یاد رہے کہ میں برسات کی نم آلود اور شبنمی راتوں میں 'کرررررر' کی آواز نکالنے والے کرکٹ (جھینگر) کی بات نہیں کر رہا۔

میں اس کھیل کی بات کر رہا ہوں جسے میں کھیل ہی نہیں سمجھتا۔ اس میں چند پاگل لوگ سفید لباس پہن کر تپتے سورج تلے کئی گھنٹے بلکہ کئی دن (شاید ہفتوں؟) بے حس و حرکت کھڑے رہتے ہیں۔ ان میں سے دو نے 'تھاپا' اٹھا رکھا ہوتا ہے۔ یہ اس ڈنڈے جیسی چیز ہے جس سے خواتین واشنگ مشین کی ایجاد سے پہلے کپڑے دھونے کا کام لیتی تھیں۔ جب واشنگ مشین ایجاد ہوئی تو یہ تھاپا بیکار ہو گیا۔ اسی دوران یہ سست اور نکمے لوگوں کے ہاتھ لگ گیا جو اس سے گیندیں پیٹنے کا کام لینے لگے۔


کرکٹ ایجاد ہو گئی اور پھر زندگی دوبارہ کبھی پہلی حالت میں واپس نہ آ سکی۔

چنانچہ احمق خبطیوں کا ایک گروہ اپنے تھاپے اور چھڑیاں (جنہیں نجانے کیوں 'وکڈ' کہا جاتا ہے) لے کر کڑکتی دوپہر میں گھروں سے باہر نکل آیا اور سارا دن کھلے میدان میں کھڑے کھڑے گزار دیا یہاں تک کہ ان کے دماغ پگھل کر ناک کے استے باہر آ گئے۔ ان لوگوں میں دو نے تھاپے اٹھا رکھے تھے جبکہ ایک کے پاس گیند تھی۔ یہ تینوں 'وکڈز' کے درمیان گاہے بگاہے بھاگ دوڑ میں مصروف تھے جبکہ گراؤنڈ میں مختلف احمقانہ نکات (سلی پوائنٹس) پر کھڑے دیگر لوگ ناک کھجانے اور زمین پر گھاس اگتی دیکھنے میں مصروف رہے۔
یقین کیجیے ایک مرتبہ میں گراؤنڈ میں بے حس و حرکت کھڑے ایسے ہی ایک شخص سے ملا تو اس نے مجھے بتایا کہ میچ کے دوران تعمیری سرگرمی کے طور پر اس نے ورنیئر کیلیپر کے ذریعے دن کی شرح نمو ماپی تھی اور یہی نہیں بلکہ وہ دو ہفتے تک دن کی اوسط شرح نمو کا اندازہ لگانے میں بھی کامیاب رہا۔

اس نے مجھے یہ بھی بتایا کہ دراصل وہ پرندوں کا مشاہدہ کیا کرتا تھا۔ چونکہ لاہور میں بڑے پیمانے پر درختوں کے کٹاؤ سے پرندوں کی بہت سی اقسام ختم ہو چکی ہیں اس لیے وہ کرکٹر بن گیا۔ یہاں میدان میں کھڑے کھڑے اسے کبھی کبھار گھاس میں جنگلی کبوتر دکھائی دے جاتے ہیں اور یوں وہ ان کے معاشقوں اور ملاپ کے طریقہ ہائے کار سے بھی بخوبی واقف ہو گیا ہے۔ اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ 'گھاس کی شرح نمو اور جنگلی کبوتروں کی عشقیہ زندگی' کے عنوان سے کتاب بھی لکھ رہا ہے۔

یہ مت پوچھیں کہ مجھے کیسے اندازہ ہوا کہ میدان میں کھڑے دو بڈھے دراصل مبلغ ہیں۔ یہ دونوں حضرات وقفے وقفے سے آسمان کی جانب انگلی اٹھاتے ہیں گویا کہہ رہے ہوں کہ 'اللہ ایک ہے'آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اگر ان کی یہ سرگرمی نہ ہوتی تو وہ کب کے بڑھاپے کے سامنے ہار جاتے۔ اسی مشق کی بدولت وہ کسی نہ کسی طرح کشش ثقل کو شکست دیتے چلے آئے ہیں۔

اس نام نہاد کھیل پر میری سالہا سال تک تنقید کے بعد اس میں ایک تبدیلی رونما ہوئی ہے اور وہ یہ کہ اب اس کھیل کا ٹی ٹوئنٹی ورژن ایجاد کر لیا گیا ہے۔ گزرے دنوں میں کرکٹ میچ کے دوران چھ مرتبہ 'ٹی' ہوتی تھی۔ میرے اطلاع دہندہ نے مجھے بتایا ہے کہ اس نئی قسم کی کرکٹ ایک باقاعدہ ٹی ہوتی ہے جس میں ہر بیس منٹ کے بعد کیک، پیسٹریاں اور کھیرے کے سینڈوچ کھائے جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ میدان میں تماشائیوں کے سامنے ہوتا ہے۔ اس نے مجھے یہ بھی بتایا کہ ہر نام نہاد کھلاڑی کو ہر ٹی پارٹی میں بیس کپ پینے پڑتے ہیں خواہ وہ داڑھی والا ہو یا داڑھی کے بغیر۔ اس عمل سے کنی کترانے والے کو آؤٹ قرار دے دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی دھوکا دے گا تو وہ بیس منٹ میں اگلی ٹی پارٹی تک نااہل قرار پائے گا۔

پس تحریر: میرے دوست ہارون رشید اپنی جوانی میں یہی کھیل کھیلا کرتے تھے اور اب اس کے سرگرم پرستار ہیں۔ یہ تحریر پڑھنے کے بعد وہ اپنی بندوق لے کر میرے پیچھے آئیں گے۔ تاہم مجھے امید ہے کہ وہ تھاپا چلانے میں جتنے نالائق تھے، بندوق چلانے میں بھی اتنے ہی کورے ہوں گے۔


Read this in English  

Labels: , ,

posted by Salman Rashid @ 00:00,

1 Comments:

At 13 March 2016 at 12:36, Blogger M Usman Weince said...

سر جی اینی نفرت....؟ 😉

 

Post a Comment

<< Home




My Books

Deosai: Land of the Gaint - New

The Apricot Road to Yarkand


Jhelum: City of the Vitasta

Sea Monsters and the Sun God: Travels in Pakistan

Salt Range and Potohar Plateau

Prisoner on a Bus: Travel Through Pakistan

Between Two Burrs on the Map: Travels in Northern Pakistan

Gujranwala: The Glory That Was

Riders on the Wind

Books at Sang-e-Meel

Books of Days