Salman Rashid

Travel writer, Fellow of Royal Geographical Society

لاہندے کی گھوڑی

Bookmark and Share

پرانے وقتوں کی بات ہے کوہستان نمک میں سکیسر کی جنوبی طرف وجھاڑا نامی گاؤں میں ایک چرواہا رہتا تھا۔ گھنجیرا قبیلے کے اس چرواہے کا نام عالی تھا۔
ایک روز اتفاقاً اس کی ملاقات گھوڑوں کی خریدوفروخت کرنے والوں سے ہوئی جن کے پاس ایک نہایت تیزطرار بچھڑی تھی۔ عالی کو یہ نوعمر گھوڑی پسند آئی جو اس نے خرید لی۔
اچھی خوراک اور تربیت کے نتیجے میں یہ 'لاہندا' کی بہترین گھوڑیوں میں شمار ہونے لگی۔ اس علاقے کی مقامی زبان میں مغربی سمت کو لاہندا یعنی 'ڈوبتے سورج کی سمت' کہا جاتا ہے۔
عالی اس گھوڑی کو خاص الخاص چارہ، بادام اور مکھن کھلاتا تھا نتیجتاً اس کا قدوقامت اور رنگ روپ اس قدر نکھر کر سامنے آیا کہ اس نے امیر امرا کے گھوڑوں کو بھی مات دے دی۔ یہی نہیں بلکہ رفتار میں بھی یہ گھوڑی علاقے میں سبھی گھوڑوں سے تیز نکلی اور بہت جلد چہارجانب اس کی تیزرفتاری کی دھوم مچ گئی۔
گھوڑی کی شہرت پھیلی تو دوردراز سے خریدار عالی کے دروازے پر آنے لگے مگر وہ کسی صورت اسے فروخت کرنے پر راضی نہ ہوا۔ دراصل عالی کے لیے یہ گھوڑی اس کے جسم و روح کا حصہ تھی۔
کچھ ہی عرصے میں اس انمول گھوڑی کی خبر دلی دربار میں شہنشاہ اکبر تک بھی پہنچ گئی۔ چنانچہ ایک فوجی دستہ منہ مانگی قیمت پر گھوڑی لینے کے لیے بھیج دیا گیا۔ دستے کو ہدایت تھی کہ اگر مالک گھوڑی بیچنے پر راضی نہ ہو تو اسے ذبردستی لایا جائے۔
ایسا ہی ہوا۔
عالی نے اپنی پیاری گھوڑی دینے انکار کر دیا اور بادشاہ کے آدمی اسے بزور طاقت ساتھ لے گئے۔
کئی ہفتے گزر گئے۔ جب عالی سے بچوں کی طرح پالی اپنی گھوڑی کی جدائی برداشت نہ ہوئی تو وہ خود دلی روانہ ہو گیا۔ جونہی وہ دارالحکومت کے قریب پہنچا تو اس نے یہ خبر سنی کہ شہنشاہ کو اپنی ایک بیمار گھوڑی کے لیے سلطنت کے بہترین طبیب کی تلاش ہے۔ عالی فوراً سمجھ گیا کہ یہ کوئی اور نہیں بلکہ اسی کی گھوڑی ہے۔ چنانچہ اس نے طبیب کا بھیس بدلا اور شاہی دربار میں جا پہنچا۔
عالی نے شاہی حکام کو بتایا کہ اس کے علاج سے گھوڑٰی کی بیماری جاتی رہے گی مگر ساتھ یہ شرط بھی عائد کی کہ وہ یہ علاج اکیلے میں کرے گا اور اس دوران کوئی اور شخص قریب موجود نہیں ہونا چاہیے۔
شاہی حکام نے اس کی اجازت دے دی۔ عالی شاہی اصطبل میں آیا جہاں ایک ناتواں اور ہڈیوں کا ڈھانچہ بنی گھوڑی اس کے سامنے کھڑی تھی۔ اس نے اپنے مالک کو دیکھتے ہی پہچان لیا اور خوش نظر آنے لگی۔ عالی نے گھوڑی کو دوبارہ صحت یاب کرنے کے لیے اس کی دیکھ بھال شروع کر دی۔ اب یہ گھوڑی وہی خوراک کھانا شروع ہو گئی جسے پہلے وہ منہ بھی نہیں لگاتی تھی۔ جسمانی بحالی کے بعد عالی اسے ورزش کرانے کے لیے باہر لے جانے لگا تاکہ اس کی پھرتی اور رفتار واپس آ سکے۔
بالاآخر ایک روز اسے اندازہ ہو گیا کہ گھوڑی اپنی پہلی حالت میں واپس آ گئی ہے۔ چنانچہ اس دن علی الصبح ورزش کے وقت عالی نے گھوڑی کو مغرب کی جانب ایڑھ لگائی اور یہ جا وہ جا۔
عالی نے وسطی ہندوستان کے ہموار میدان تیزرفتاری سے عبور کیے اور جب تک اس کے فرار کی خبر سامنے آتی اس وقت تک وہ دریائے بیاس کے پار جا چکا تھا۔ رات کے اندھیرے میں راوی عبور کرنے کے بعد بھی اس کا سفر کسی وقفے کے بغیر جاری رہا۔
راوی اور چناب کی درمیانی پٹی رچنا دوآب میں ڈاکوؤں سے بھرے پیلو کے جنگلوں میں اس کی گھوڑی ہوا کی طرح فراٹے بھرتی گزری۔ اگلے دن کا سورج غروب ہونے سے پہلے وہ دریائے جہلم کے نیلے سبز پانیوں کو پیچھے چھوڑ چکا تھا اور افق پر سکیسر کے پہاڑوں کا اطمینان بخش نظارہ اس کے سامنے تھا۔ اب وہ قریباً اپنے گھر تک پہنچ ہی چکا تھا۔ چنانچہ اس نے ایک سرائے کا رخ کیا اور باگیں کھینچ لیں۔
سرائے میں تندور پر بیٹھی عورتی آپس میں باتیں کر رہی تھیں۔ ایک نے پوچھا 'کیا آپ لوگوں نے سنا کہ عالی شاہی اصطبل سے گھوڑی بھگا لے گیا ہے'
یہ سن کر عالی دم بخود رہ گیا۔ راہ میں اس سے آگے کوئی نہیں تھا، ایسے میں فرار کی خبر اس سے پہلے یہاں تک کیسے پہنچ گئی؟
عالی ایک مرتبہ پھر گھوڑی پر بیٹھا اور وہ ہوا سے باتیں کرنے لگی۔ گھوڑی بھاگتی رہی یہاں تک کہ اس میں دم نہ رہا اور وہ گر کر مر گئی۔
لاہندے کے لوگ اس کہانی سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ عورتوں کی باتوں پر کبھی کان نہیں دھرنے چاہئیں۔
مگر اس کہانی کا اصل جوہر یہ نہیں ہے۔
دراصل یہ طاقت ور مغلوں کے خلاف پنجابی مزاحمت کی داستان ہے۔ لاہندے میں طاقت ور بندیال اور ٹوانے قبائل کا تعلق اعلیٰ طبقے سے تھا جبکہ گھنجیرا کمتر حیثیت کا قبیلہ سمجھا جاتا تھا۔ مگر ایک گھنجیرا اس قدر بلند ہمت نکلا کہ مغل تاریخ کے طاقت ور ترین بادشاہ کی ناک تلے اپنی چوری شدہ ملکیت لے کر نکل بھاگا۔
اگر گھنجیرا قبیلے کا غریب چرواہا اس قدر دلیر ہو سکتا ہے تو ذرا سوچیے اگر طاقتور قبائل مغلوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے تو کیا ہوتا۔

ترجمہ: محمد فیصل

Labels:

posted by Salman Rashid @ 00:00,

2 Comments:

At 20 July 2019 at 22:29, Anonymous Anonymous said...

Do you mind if I quote a few of your articles as long as I provide credit and sources back to your site?
My blog is in the exact same area of interest as yours
and my visitors would really benefit from some of the information you provide here.
Please let me know if this okay with you. Thank you!

 
At 23 July 2019 at 12:20, Blogger Salman Rashid said...

Yes. Please go ahead.

 

Post a Comment

<< Home




My Books

Deosai: Land of the Gaint - New

The Apricot Road to Yarkand


Jhelum: City of the Vitasta

Sea Monsters and the Sun God: Travels in Pakistan

Salt Range and Potohar Plateau

Prisoner on a Bus: Travel Through Pakistan

Between Two Burrs on the Map: Travels in Northern Pakistan

Gujranwala: The Glory That Was

Riders on the Wind

Books at Sang-e-Meel

Books of Days